گیلانی ریلوے اسٹیشن کراچی پر لینڈ گریبروں کا قبضہ Gilani Railway Station Land Graiber


نوٹ پاکستان ریلوے کے کرپشن کے بارے میں بنائی گئی یہ ویب ابھی تحقیق و ترتیب کے مراحل سے گزر رہی ہے  اس لیئے اس میں مواد کی کمی ہے جلد ہی پاکستان ریلوے کے تمام کرپشن کی تفصیلات آ]پ کی خدمت میں پیش کردی جائیں گی 
Gillany Railway Station Land Grabing   
     
کراچی کے گیلانی ریلوے استیشن پر ریلوے پولیس تھانے کے ایس ایچ او علی حسن ڈہری اور ہیڈ کانسٹیبل کنور سہیل کی سرپرستی میں  کی جانے والی لینڈ گر یبنگ  ملاحظہ کیجیے کہ کس طرح جگیاں اور بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں  تصویر کے عقب میں جو عمارتیں نظر آرہی ہیں ان کی اکثریت ریلوے ہی کی زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہیں ۔۔۔۔
 گیلانی ریلوے اسٹیشن پر لینڈ گریبنگ.
Gilani Railway Station, karachi

یہ 
گیلانی ریلوے اسٹیشن ہے اس تصویر پر ایک نگاہ

ڈالتے ہی ریلوے کی زمین پر کی جانے والی لینڈ گریبنگ

کی مکمل کیفیت
 نظر آجاتی ہے کہ کس طرح لینڈ 

گریبرو ں کے ساتھ مل کر ریلوے کے بدعنوان افسروں نے

 لوٹ مار کی  ہے؟
 کیا آپ جانتے ہیں کہ کراچی شہر کے

 وسط میں واقع گلشن اقبال کے اہم ترین اس علاقے میں  

ایک پلاٹ کس قیمت کا ملتا ہے نہیں معلوم تو ہم بتاتے ہیں  

ایک کروڑ سے کم قیمت کا پلاٹ اس وقت گلشن اقبال میں 

ہے ہی نہیں پھر اندازہ لگا لیں کہ گلشن اقبال جیسے اہم 

 ترین علاقے کے وسط میں جو یونیورسٹی  روڈ سے 

انتہائی قریب ہے 

 اس کی قیمت کیا ہوگی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟  

گیلانی ریلوے اسٹیشن کے ساتھ ہی تعمیر شدہ 

یہ عمارتِیں پاکستان کے کسی بھی ادارے سے منظور شدہ 

نہ ہی ان کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے منظوری ملی 

نہ ہی ان کے مالکان کے پاس ریلوے کے کسی شعبے کی 


جانب سے اجازت نامہ یا منظور شدہ نقشہ موجود ہے اگر

 ہے  ان کے پاس صرف اور صرف ایک 

ہی اجازت نامہ ہے وہ یہ کہ کراچی سٹی اسٹیشن پر واقع

ریلوے پولیس کے تھانہ کے ہیڈ کانسٹیبل کنور سہیل اور 



ایسایچ او علی حسن ڈہر اور ریلوے کے ڈی این شوکت 


شیخ  کی جانب سے غیر قانونی اجازت نامہ جس کی 


تصدیق کوئی بھِی زمے دار ادارہ کرنے کے لیئے تیار نہِیں


مگر اس کے باوجود اس غیر قانونی لینڈ گریبنگ اور قبضہ 


مافیا کے خلاف کوئی محکمہ کسی طرح کا کوئی  ایکشن 



لینے کے لیئے بھی تیار نہِیں  ہے


نہ ہی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کی جانب 

سے کسی بھی طرح کی کوئی کاروائی کی جاتی ہے اور نہ 

 ریلوے حکام پہی لب کشائی کرتے ہیں اور تو اورپاکستان

 ریلوے کوآپریٹیو ہاوسنگ سوسائیٹی جس کا دفتر کلفٹن 

میں بلاول ہاوس کے عقب میں واقع ہے کے  

ایڈمنسٹریٹر عبدالخالق  فاروقی جن کاتعلق  شکار پور شہر

 سے ہے  جہاں ان کی بہت سی یادگاریںآج بھی موجود ہیں 

بمعہ ریکارڈ اور ثبوتوں کے ساتھ مگر آب زم زم سے

 نہائے ہوئے جناب  عبدالخالق فاروقی نہ تو قومی دولت کو

 اس طرح اڑانے و برباد  پر کوئی کارروائی کرتے ہیں اور

 نہ ہی ریلوے کے غریب کارکنوں  کی اس قیمتی دولت کو 

بچانے کی کوشش  کرتےہیں حالانکہ ان کا تو کام اور فرض

 یہ ہی ہے کیوں ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بھلا ملی بھگت

 کے بغیر کبھی کوئی جرم کیا گیا ہے؟؟؟؟؟؟

 گلشن اقبال کراچی میں واقع گیلانی ریلوے اسٹیشن جو بدعنوان ریلوے حکام کی بدعنوانیوں کے باعث اس وقت بھوت بنگلہ بن چکا ہے اس کی اربوں روپے مالیت کی  زمین ریلوے پولیس کے ایس ایچ او اور ہیڈ کانسٹیبنل کی ملی بھگت 
سے  غیرقانونی طور پر فروخت کی جارہی ہے  ذرائع کے مطابق گیلانی ریلوے اسٹیشن پر موجود اربوں روپوں کی زمین بیچنے میں اہم ترین کردار  ریلوے حکام 
ہی کا  ہے 
گلشن اقبال کا نقشہ جس میں گیلانی ریلوے اسٹیشن کی مکمل زمین اور
گیلانی ریلوے اسٹیشن کی حدود واضح کی گئی ہے 

اس لوٹ کھسوٹ میں ریلوے پولیس،کا عملہ کانسٹیبل ہیڈ کانسٹیبل ،اور  ایس ایچ او ریلوے تھانہ جو سٹی اسٹیشن پر واقع ہے  کے ساتھ ریلوے پولیس کے اعلیِ حکام اور ریلوے کےاعلی حکام شامل ہیں جن کے گھروں تک براہ راست گیلانی  ریلوے اسٹیشن  کی زمین کی لینڈ گریبنگ سے حاصل شدہ آمدنی پہنچائی جاتی ہے اس حوالے سے لینڈ گریبنگ کی مکمل تفصیلات آپ کے سامنے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ 
پیش کی جائے گی
یہ بات ذہن نشین رہے کہ  سندھ ہائی کورٹ کے معزز جج جناب عبدالرشید خان نے10مارچ1991کو اسٹے آرڈر نمبر 473-R/6/PMIC/10/91جاری کیا جس میں سیکرٹری پاکستان ریلوے کو مخاطب کرکے ریلوے سے متعلقہ تمام زمینوں کی خریدو فروخت پر پابندی عائید کر دی تھی 
اس   اسٹے آرڈر
کے نتیجے میں   
اب سے تقریبا 23سال قبل گیلانی  ریلوے اسٹیشن  کی اس زمین پر کسی بھی قسم کی تعمیرات یا خرید و فروخت کو ممنوع قرار دیدیا گیا تھا  

 گیلانی ریلوے اسٹیشن پرہونے والی لینڈ گریبنگ پر ڈان اخبار میں  شائع شدہ خبر 
Previous StoryDAWN - the Internet EditionNext Story

June 19, 2006MondayJumadi-ul-Awwal 22, 1427


KARACHI: Railway employees’ plots occupied


By Our Staff Reporter

KARACHI, June 18: Around 119 plots of Railway Employees Cooperative Housing Society (Project-2A), located near Aladin Park, have been illegally occupied by land mafia allegedly in connivance with some office-bearers of the Society.

Affected persons said more than 17 years have elapsed since they were allotted plots, the PRECHS’ office-bearers concerned have, so far, neither undertaken demarcation nor given physical possession, thus giving a free hand to land mafia.

Accusing the office-bearers of delaying issuance of physical possession of over 100 plots, measuring 240 and 120 square yards, to allottees on the pretext of demarcation, an office-bearer of the affected persons’ welfare organisation, Najeeb Shah, said since the RECHS had not yet undertaken demarcation work, armed guards who remain present at the society’s land, not only manhandle allottees but also threaten them of dire consequences.

The affected persons deplored that although they had brought the issue to the notice of higher authorities, including the president, the prime minister, the Railways’ minister, the Sindh governor, the home minister, IGP and Gulshan Town’s Nazim, SDPO and the SHO concerned, the land-grabbers are still occupying their plots.
They appealed to the authorities to help retrieve their plots from clutches of land mafia and direct the RECHS’ officials to give physical possession to retired persons, widows and orphans  

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 comment:

  1. مشکل ہے کیونکہ اس کے پردے بنانے پڑتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر آلاتِ موسیقی مثلاً ہارمونیم وغیرہ میں پردے پہلے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں رباب سیکھنا ایک نہایت ہی مشکل فن ہے۔ اس کی وجہ اس میں تاروں کی بڑی تعداد ہے رباب کے مقابلے میں گٹار اور ستار میں تین یا پانچ تار ہوتے ہیں اس لیے یہ دونوں آلات سیکھنے میں بھی
    djpunjab

    ReplyDelete